رأس السنة الهجرية وعاشوراء (1)
محترم قراء، ماہ محرم اور عاشورہ قریب آ گئے ہیں۔ ہجری سال، محرم کا مہینہ اور عاشورہ ہمارے دینی زندگی کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ اس موضوع پر ہمارے دو حصوں پر مشتمل خصوصی گفتگو کا آج پہلا حصہ پیش ہے۔
اسلامی تقویم کا پہلا مہینہ محرم کا مہینہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور اس سے پہلے رومی، فارسی اور دیگر قوموں میں ان کے اپنے تقویم رائج تھے۔ عربوں میں کوئی متعین سال شمار کا نظام نہیں تھا۔ مختلف واقعات کی بنیاد پر تاریخ بیان کی جاتی تھی، جیسے "فلاں واقعہ کے اتنا سال بعد"۔ خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے تیسرے یا چوتھے سال ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے انہیں خط لکھ کر بتایا کہ آپ کے سرکاری فرامین میں تاریخ نہ ہونے کی وجہ سے انتظامی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں، اس لیے ایک تقویم کا استعمال ضروری ہے۔ خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کو جمع کر کے مشورہ طلب کیا۔ کچھ نے رومی یا فارسی تقویم استعمال کرنے کا مشورہ دیا، لیکن دوسروں نے اسے ناپسند کیا اور مسلمانوں کے لیے اپنی تقویم کی ضرورت پر زور دیا۔ اس سلسلے میں کچھ نے مشورہ دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے سال کی گنتی شروع کی جائے۔ کچھ نے آپ کی نبوت سے، کچھ نے ہجرت سے اور کچھ نے آپ کی وفات سے سال شمار کرنے کا مشورہ دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہجرت سے سال شمار کرنے کی پُرزور تائید کی۔ خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ نے اس رائے کی تائید کرتے ہوئے فرمایا کہ ہجرت ہی حق اور باطل کے درمیان فرق کی نشاندہی کرتی ہے، اس لیے ہمیں ہجرت سے ہی سال شمار شروع کرنا چاہیے۔ بالآخر صحابہ کرام ہجرت سے سال شمار کرنے پر متفق ہوئے۔
کون سا مہینہ سال کا آغاز ہوگا، اس پر مشورہ طلب کیا گیا۔ کچھ نے ربیع الاول کو سال کا پہلا مہینہ بنانے کا مشورہ دیا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی مہینے میں ہجرت کر کے مدینہ میں قدم رکھا تھا۔ 12 ربیع الاول کو آپ مدینہ پہنچے۔ کچھ نے رمضان سے سال شروع کرنے کا مشورہ دیا، کیونکہ رمضان میں اللہ نے قرآن نازل کیا تھا۔ آخر کار وہ محرم سے سال شروع کرنے پر متفق ہوئے، کیونکہ یہ چار "حرم" یا معزز مہینوں میں سے ایک ہے۔ نیز، اسلام کے آخری رکن حج کی ادائیگی کے بعد مسلمان اسی مہینے میں واپس لوٹتے ہیں۔ حج کو سال کا آخری اہم عمل قرار دیتے ہوئے محرم کو نئے سال کا آغاز مانا گیا۔ اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تقریباً 6 سال بعد 16 یا 17 ہجری سے صحابہ کرام کے اجماع کے تحت ہجری سال کا آغاز ہوا۔ اگرچہ ہجرت ربیع الاول میں ہوئی تھی، لیکن دو مہینے پیچھے سے، یعنی اس سال کے محرم سے سال شمار شروع کیا گیا۔ [طبری، التاریخ 2/3-4؛ ابن الجوزی، المنتظم 2/1]
انتہائی افسوس کی بات ہے کہ ہم بنگلہ دیش کے اکثر مسلمان اپنے دینی تقویم کے بارے میں کوئی خبر نہیں رکھتے۔ بلکہ آج کتنے ہجری سال ہے، یہ اکثر متدین مسلمان بھی نہیں بتا سکیں گے۔ ہم جو "انگریزی سال" استعمال کرتے ہیں، وہ ہرگز "انگریزی" نہیں، بلکہ عیسائی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تقریباً 1600 سال بعد 1582 عیسوی میں پوپ گریگوری ہشتم نے رائج الوقت قدیم رومی جولین کیلنڈر میں ترمیم کر کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کو سال شمار کا آغاز قرار دیا، جسے گریگورین کیلنڈر یا عیسائی کیلنڈر کہا جاتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو رب اور معبود ماننے کی بنیاد پر اس میں سال کو "Anno Domini" (A.D.) کہا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے "ہمارے رب کے سال میں"۔ صرف دنیاوی ضرورت ہی نہیں، بلکہ زندگی کے ہر معاملے میں ہم اس عیسائی تقویم کے مطابق چلتے ہیں۔ اللہ ہمیں معاف فرمائے اور صحیح راہ پر چلائے۔
اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعلیم دی کہ ہر صبح اللہ کے حضور دل کھول کر شکرگزاری اور تبدیلی کی دعا کے ساتھ نئی زندگی کا آغاز کرنا چاہیے۔ اور ہر رات سونے سے پہلے بخشش اور رحمت کی دعا کر کے اللہ کے رحمت کے سایے میں اپنی روح کو سپرد کر دینا چاہیے۔
ہم میں سے بہت سے لوگ نئے سال کی مبارکباد یا نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۔ درحقیقت خواہش یا مبارکباد نہیں، بلکہ دعا ہی اسلامی طریقہ ہے۔ مبارکباد کا مطلب ہمارے دل کی نیک خواہش ہے، لیکن انسان کی خواہش کی کیا قیمت؟ اصل قیمت تو اللہ کی مرضی کی ہے۔ اس لیے نئے سال کی کامیابی کے لیے اس کے حضور دعا کرنی چاہیے۔ نیز، خالی خواہشات کوئی تبدیلی نہیں لاتیں، بلکہ مضبوط عزم، نئے سال کو نئے سرے سے سنوارنے کی پختہ خواہش اور عمل ہی تبدیلی لاتے ہیں۔ قرآن و حدیث کی تعلیمات سے ہم جانتے ہیں کہ مخلوق کی خدمت اور انسانوں کا بھلا کرنا ہی دنیاوی زندگی میں اللہ کی رحمت اور برکت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ اسی طرح انسانوں کو نقصان پہنچانا یا معاشرے کے حقوق سلب کرنا اللہ کے غضب اور عذاب کا سبب بنتا ہے۔ آئیے، ہم سب مل کر اللہ کے احکام کے مطابق اس کی عبادت اور اطاعت کے ذریعے، انسانوں کے حقوق ادا کرنے اور نقصان سے بچنے کے ذریعے نئے سال کا آغاز کریں۔ اللہ ہم سب کو توفیق دے۔
ایک اور وجہ سے "عاشورہ" امت مسلمہ میں مشہور ہوا، وہ ہے واقعہ کربلا۔ بہت سے لوگ "عاشورہ" سے صرف کربلا کا واقعہ ہی سمجھتے ہیں، حالانکہ شرعی اعتبار سے عاشورہ کے روزے یا فضیلت کا کربلا کے واقعہ سے کوئی تعلق نہیں۔ تاہم تاریخی واقعہ کے طور پر کربلا کا جائزہ لینا ہمارے لیے نہایت ضروری ہے۔ یہ واقعہ امت کے لیے انتہائی دل دکھانے والا اور تکلیف دہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے صرف 50 سال بعد 61 ہجری میں محرم کی 10 تاریخ کو جمعہ کے دن عراق کے مقام کربلا پر آپ کے ہی پیارے نواسے حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو آپ ہی کی امت کے بعض لوگوں کے ہاتھوں ظالمانہ طریقے سے شہید کر دیا گیا۔ اس واقعہ نے امت مسلمہ میں دائمی تقسیم اور انتشار پیدا کر دیا۔ بہت سی جھوٹی اور بے بنیاد روایات اس واقعہ کے گرد گھڑی گئیں۔ اگلے مضمون میں ہم معتبر قدیم تاریخ کی کتابوں کی روشنی میں امام حسین کی شہادت کے واقعہ پر مختصراً گفتگو کریں گے۔